سندھ طاس معاہدہ کیا تھا اور اس کے کیا کیا نقصانات ہوں گئے
سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء کو طے پایا، جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا تھا۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی سے نو سالہ مذاکرات کے بعد طے پایا، اور عالمی بینک بھی اس کا دستخط کنندہ ہے۔
معاہدے کی اہم شقیں
معاہدے کے تحت دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا:
مشرقی دریا: راوی، بیاس، اور ستلج بھارت کو مکمل طور پر تفویض کیے گئے۔
مغربی دریا: سندھ، جہلم، اور چناب پاکستان کے لیے مخصوص کیے گئے، اور بھارت کو ان پر محدود استعمال کی اجازت دی گئی، جیسے کہ زراعت، پن بجلی، اور گھریلو ضروریات، بشرطیکہ وہ پاکستان کے پانی کے بہاؤ میں مداخلت نہ کرے۔
معاہدے کی اہمیت
یہ معاہدہ دنیا کے کامیاب ترین بین الاقوامی معاہدوں میں شمار ہوتا ہے، جو کہ متعدد جنگوں اور کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا۔ اس معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا گیا، جو دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز پر مشتمل ہے اور پانی کے بہاؤ، موسمیاتی معلومات، اور منصوبوں کی نگرانی کرتا ہے۔
معاہدے کے اثرات اور چیلنجز
معاہدے کے تحت پاکستان کو نئے ڈیمز اور نہری نظام کی تعمیر کے لیے عالمی بینک، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، اور جرمنی سے مالی امداد ملی، جس سے منگلا، تربیلا، اور وارسک جیسے منصوبے مکمل ہوئے۔ تاہم، وقت کے ساتھ بھارت کی جانب سے مغربی دریاؤں پر ڈیمز کی تعمیر، جیسے بگلیہار اور کشن گنگا، نے پاکستان کے لیے خدشات پیدا کیے ہیں، کیونکہ یہ معاہدے کی روح کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔
معاہدے کے باوجود، پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، اور ان کے حل کے لیے عالمی ثالثی کی ضرورت پڑتی ہے۔
نقصانات
اگر یہ مائدہ انڈیا ختم کر دے تو اس کے کیا نقصانات ہوں گئے پاکستان کو؟
اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر دے (جو کہ بین الاقوامی قانون کے تحت جائز نہیں ہے)، تو اس کے پاکستان پر کئی سنجیدہ اور دور رس منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں:
1. پانی کی شدید قلت
پاکستان کی زرعی زمین کا بڑا حصہ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) پر انحصار کرتا ہے۔
اگر بھارت ان دریاؤں پر پانی روکے یا ذخیرہ کرے، تو پاکستان کو شدید زرعی، صنعتی، اور گھریلو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا۔
2. زرعی معیشت کو دھچکا
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں گندم، چاول، کپاس، اور گنا جیسے فصلیں دریائی پانی پر انحصار کرتی ہیں۔
پانی کی کمی فصلوں کی پیداوار کو بری طرح متاثر کرے گی، جس سے خوراک کی قلت، برآمدات میں کمی، اور کسانوں کی معاشی بدحالی جنم لے سکتی ہے۔
3. توانائی بحران
پاکستان کے کئی بڑے ہائیڈرو پاور منصوبے انہی دریاؤں پر قائم ہیں (مثلاً تربیلا، منگلا)۔
پانی کی کمی سے بجلی کی پیداوار کم ہو جائے گی، جس سے توانائی بحران اور لوڈشیڈنگ بڑھے گی۔
4. ماحولیاتی تباہی
دریاؤں کے بہاؤ میں خلل سے ماحولیاتی نظام متاثر ہوگا، خاص طور پر سندھ ڈیلٹا، جو پہلے ہی پانی کی کمی سے متاثر ہے۔
مچھلیوں، جنگلی حیات، اور مقامی زراعت کو نقصان پہنچے گا۔
5. سیاسی و علاقائی کشیدگی
سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور ممکنہ طور پر جنگ کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔
عالمی سطح پر بھارت کے خلاف پاکستان اقوام متحدہ یا عالمی عدالت انصاف میں جا سکتا ہے، لیکن اس میں وقت اور سفارتی سرمایہ درکار ہوگا۔
6. عالمی اعتماد میں کمی
بھارت کے یکطرفہ اقدام سے دنیا میں اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی پر سوال اٹھے گا، اور یہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
What's Your Reaction?
Like
0
Dislike
0
Love
0
Funny
0
Angry
0
Sad
0
Wow
0