’اسرائیل امریکا کی پہلی ترجیح نہیں رہا‘، ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے میں سائیڈ لائن کردیا
اسرائیلی عہدیداروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر جانے پر بے خوفی کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کا یہ فیصلہ اسرائیل میں واشنگٹن کی ترجیحات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔
اسرائیلی عہدیداروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر جانے پر بے خوفی کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کا یہ فیصلہ اسرائیل میں واشنگٹن کی ترجیحات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی تازہ ترین پیش رفت ہے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو غزہ میں فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسے امریکا کی طرف سے ایک امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی اطلاع دی گئی ہے، یہ بات چیت براہ راست واشنگٹن اور حماس کے درمیان ہوئی تھی جس میں اسرائیل شامل نہیں تھا۔
امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ واپس لینے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ عالمی طور پر اسرائیل کے لیے کتنا نقصان دہ رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ تصفیے کے اقدامات پر رضا مندی دے۔
سعودی عرب کو ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران متحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا کہا جانا تھا جو نیتن یاہو کا بڑا ہدف رہا ہے، لیکن اب مقصد میں لامحدود تاخیر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
صدر ٹرمپ (جو سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر پہنچنے والے ہیں) نے پچھلے ہفتے اچانک یہ اعلان کرکے اسرائیل میں اضطراب پیدا کردیا تھا کہ امریکا یمن میں حوثیوں پر بمباری بند کر دے گا، چند دن بعد ایک حوثی میزائل نے اسرائیل کے مرکزی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا، یہ خطے کے لیے واضح پیغام تھا۔
اسرائیلی نیوز آؤٹ لیٹ ’وائی نیٹ‘ کے مطابق اسرائیل اب امریکا کی پہلی ترجیح نہیں ہے اور یہ بات وائی نیٹ کے سفارتی نمائندے ایتامار آئچنر (جو سیاسی نظریے کی بنیاد پر میڈیا کے تبصرہ نگاروں میں شامل ہیں) نے لکھی ہے۔
اسرائیل نے مستقبل کے غزہ کے بارے میں امریکا کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اہلکار کہتے ہیں کہ سرکاری سطح پر تعلقات مضبوط ہیں، لیکن کچھ اہلکار تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے فیصلہ سازی سے حیران رہ گئے۔
حوثیوں کے بارے میں فیصلے (جس پر پہلے اسرائیل کے ساتھ گفتگو نہیں کی گئی) نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکا کے مذاکرات میں اسرائیلی بے چینی کو مزید بڑھا دیا، جو تہران کے خلاف کسی بھی اسرائیلی فوجی کارروائی کی دھمکی کو کمزور کر سکتا ہے۔
اسرائیل کو اس وقت مزید تشویش کا سامنا کرنا پڑا جب یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ امریکا اب سعودی عرب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مطالبہ نہیں کر رہا، جو کہ سول نیوکلیئر تعاون کے مذاکرات میں ترقی کے لیے شرط تھی۔
مارچ کے مہینے میں ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر نے ایسی ملاقاتیں کیں، جن کو حماس نے بہت مددگار قرار دیا، جو اسرائیل کو نظرانداز کرتے ہوئے اور فلسطینی گروپ کے ذریعے ایڈن الیگزینڈر کی رہائی پر مرکوز تھیں، پچھلے ہفتے امریکی سفیر مائیک ہکابی نے انکار کیا کہ ٹرمپ نے اسرائیل سے خود کو فاصلے پر کر لیا ہے۔
What's Your Reaction?
Like
0
Dislike
0
Love
0
Funny
0
Angry
0
Sad
0
Wow
0