One Thing
"دی ون تھنگ" ایک کامیاب زندگی کے حصول کے لیے ایک طاقتور تصور پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب اس خیال پر مبنی ہے کہ ہم اپنی توجہ کو محدود کر کے اور سب سے اہم کام پر مرکوز ہو کر غیر معمولی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ مصنفین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کامیابی کی کنجی یہ نہیں ہے کہ ہم زیادہ کام کریں، بلکہ یہ ہے کہ ہم صحیح کام کریں۔ کتاب میں "فوکسنگ سوال" متعارف کرایا گیا ہے، جو ہمیں یہ پہچاننے میں مدد کرتا ہے کہ ہم کون سا ایک کام کر سکتے ہیں جس سے ہمارے باقی تمام کام آسان یا غیر ضروری ہو جائیں گے۔ یہ سوال ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنے اور اپنی توانائی کو سب سے زیادہ اثر انگیز سرگرمیوں پر صرف کرنے میں مدد کرتا ہے۔ "دی ون تھنگ" میں وقت کے انتظام، مقصد کے حصول، اور پیداواریت کو بڑھانے کے لیے عملی حکمت عملی اور تکنیکیں بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک قیمتی وسیلہ ہے جو اپنی زندگی میں زیادہ کامیابی، کم تناؤ اور زیادہ اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کتاب کا خلاصہ: "دی ون تھنگ" کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ کامیابی کی راہ کثرت میں نہیں، بلکہ ارتکاز میں ہے۔ ہم اکثر اپنی توجہ کو بہت سی چیزوں پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہم کم موثر اور زیادہ دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ کتاب ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کس طرح: اپنی سب سے اہم ترجیح کی نشاندہی کریں: "فوکسنگ سوال" کا استعمال کرتے ہوئے، ہم وہ ایک کام تلاش کرتے ہیں جو ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس پر توجہ مرکوز کریں: ہم اپنی تمام تر توانائی اور وقت کو اس ایک کام پر صرف کرتے ہیں جب تک کہ ہم اسے مکمل نہیں کر لیتے۔ بڑے اہداف حاصل کریں: وقت کے ساتھ ساتھ، یہ مرکوز نقطہ نظر ہمیں غیر معمولی نتائج کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر چیز یکساں طور پر اہم نہیں ہوتی، اور یہ کہ کچھ کام دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ "دی ون تھنگ" ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ کس طرح اپنے وقت اور توانائی کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا جائے تاکہ ہم اپنی زندگی میں سب سے زیادہ معنی خیز نتائج حاصل کر سکیں۔
کیا آپ ٹائم مینجمنٹ کے وہ اصول جاننا چاہتے ہیں جو واقعی سب سے اہم ہیں؟
کیا آپ اپنے کام وقت پر مکمل نہیں کر پا رہے؟
کیا آپ اپنی پرسنل اور پروفیشنل زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں؟
یا آپ کامیابی کے وہ راز جاننا چاہتے ہیں جنہیں جاننا ضروری ہے؟ (اور کامیابی کا فارمولا بھی؟)
اگر ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی "ہاں" ہے، تو یہ تحریر خاص آپ کے لیے ہے۔
کتاب کا تعارف :
آج کی مصروف دنیا میں یہ عام بات ہے کہ لوگ ایک ساتھ کئی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی Multitasking کو کامیابی کا راستہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر کام بھی کریں، ہر موقع بھی پکڑیں، اور ہر شعبے میں آگے بھی نکلیں۔ مگر The One Thing اس روایتی سوچ پر سوال اٹھاتی ہے۔
یہ کتاب بتاتی ہے کہ اصل کامیابی بہت سے کام ایک ساتھ کرنے سے نہیں، بلکہ ایک سب سے اہم کام پر فوکس کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ عام سیلف ہیلپ کتابوں کی طرح صرف موٹیویشنل باتیں نہیں کرتی، بلکہ مصنف نے تحقیق، سادہ اصولوں اور حقیقی زندگی کی مثالوں کے ذریعے ایک ایسا نکتہ سمجھایا ہے جو ہمارے کام کرنے کے انداز کو بدل سکتا ہے۔
یہ کتاب پڑھنے والےسوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنی توجہ کہاں لگا رہے ہیں، اور کیا واقعی ہم وہ کام کر رہے ہیں جو سب سے زیادہ فرق ڈال سکتا ہے؟
اب یہ کتاب اتنی اہم ہے تو پھر آئیے اب جانتے ہیں کہ The One Thing ہمیں کیا سکھاتی ہے اور اس کی سب سے اہم باتیں کیا ہیں۔
کتاب کی سمری :
1.اکثر لوگ زندگی کو منظم رکھنے کے لیے "ٹو-ڈو لسٹ" بناتے ہیں تاکہ انہیں یاد رہے کہ کیا کیا کرنا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب لسٹ بن جائے تو کام شروع کہاں سے کریں؟
کیا پہلے وہ کام کریں جو وقت زیادہ لیتے ہیں؟
یا وہ جو چھوٹے اور جلد مکمل ہوجاتے ہیں؟
یا جیسے لکھے گئے ہیں، ویسے ہی چلتے جائیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام طریقے ایک بہت اہم نکتے کو نظر انداز کرتے ہیں:
ہر کام کی اہمیت برابر نہیں ہوتی۔
اکثر آپ کی لسٹ میں کچھ ہی کام ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی کامیابی پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ اصل ذہانت یہ ہے کہ اُن تھوڑے سے اہم کاموں کو پہچانا جائے—اور باقی کو پیچھے کر دیا جائے۔
یہی بات "جوزف ایم جوران" نے کوالٹی کنٹرول مینجمنٹ میں دریافت کی، جب وہ جنرل موٹرز کے لیے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ گاڑیوں میں زیادہ تر خرابیاں محض چند خامیوں کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھیں۔ یعنی اگر صرف انہی چند جگہوں کو بہتر کیا جائے تو زیادہ تر مسئلے حل ہو جائیں گے۔
انہوں نے اس دریافت کو "پریٹو پرنسپل Pareto Principle " کا نام دیا یہ ایک اطالوی ماہرِ معیشت "ولفریڈو پریٹو" کی تحقیق پر مبنی تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ 19ویں صدی کے اٹلی میں 80 فیصد زمین صرف 20 فیصد لوگوں کے پاس تھی۔
جوران کو لگا کہ یہ تناسب صرف معیشت میں نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں لاگو ہوتا ہے:
80 فیصد نتائج صرف 20 فیصد کوششوں سے حاصل ہوتے ہیں۔
تو مطلب یہ ہے کہ آپ کی لسٹ کے سارے کام ایک جیسے اہم نہیں۔ اصل فائدہ چند مخصوص کاموں سے آتا ہے۔
اس لیے:
اپنی لسٹ کو ذہن سے دیکھیں… ہر کام کو برابر نہ سمجھیں. ان کاموں کو پہچانیں جو باقی سب سے زیادہ فرق ڈالیں گے اور اپنی توجہ ان پر مرکوز کر دیں۔
یاد رکھیں، سمجھداری یہ نہیں کہ سب کچھ کریں… بلکہ یہ ہے کہ وہ کریں جو سب سے زیادہ معنی رکھتا ہو۔
2.کامیابی کے موضوع پر مارک ٹوین نے کہا تھا:
"آگے بڑھنے کا راز ہے شروعات کرنا، اور شروعات کا راز ہے کہ بڑے اور پیچیدہ کاموں کو چھوٹے، قابلِ عمل حصوں میں توڑ دو… پھر پہلا قدم اُٹھاؤ۔"
یہ واقعی بہترین مشورہ ہے لیکن اکثر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ جانا کہاں ہے، اور پہلا قدم کیا ہونا چاہیے؟
اسی الجھن کو سلجھانے کے لیے مصنفین ایک نہایت طاقتور سوال تجویز کرتے ہیں… جسے وہ کہتے ہیں:
"Focusing Question"
یعنی وہ سوال جسے آپکی سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
یہ سوال کیا ہے؟
"ایسا ایک کام کیا ہے جو میں ابھی کر سکتا ہوں،جس سے باقی سارے کام یا تو آسان ہو جائیں یا بالکل غیر ضروری؟"
یہ سوال بظاہر سادہ لگتا ہے، لیکن اس کی گہرائی بے حد زبردست ہے۔
یہ دو سطحوں پر کام کرتا ہے:
?پہلا لیول — بڑا وژن:
یہ آپ کو زندگی کے بڑے مقصد کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے۔
یعنی وہ "One Thing" جو آپ اپنی پوری زندگی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مثال کے طور پر: آپ کا کریئر گول، مشن یا خواب۔
? دوسرا لیول — آج کی حکمتِ عملی:
یہ سوال آپ کی روزمرہ کی ترجیحات کو ترتیب دیتا ہے۔
یعنی: آج، اسی لمحے، وہ ایک کام کون سا ہے جو سب سے زیادہ فرق ڈالے گا؟
جیسے: کسی کو فون کرنا، ایک ای میل بھیجنا، یا کوئی فائل مکمل کرنا۔
پہلا لیول آپ کو صحیح سمت دیتا ہے اور دوسرا لیول صحیح قدم اٹھانے میں مدد دیتا ہے۔ اور خاص بات یہ ہے کہ اگر آپ یہ سوال بار بار خود سے پوچھتے رہیں تو نہ صرف آپ کی توجہ بکھرنے سے بچی رہے گی، بلکہ آپ کو ایسے عمل بھی ملیں گے جو ایک دوسرے پر بنتے جائیں گے یعنی: عمل، تسلسل، اور ترقی۔ تو اگلی بار جب آپ پریشان ہوں، الجھے ہوں، یا فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں تو بس خود سے یہ ایک سوال پوچھیں:
"وہ ایک کام کون سا ہے؟" اور پھر دیکھیں کہ آپ کہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔
3.ڈسپلن والی زندگی کا راز؟ ایک کے بعد ایک اچھی عادت بنانا۔
ہم جب بل گیٹس جیسے کسی کامیاب انسان کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں لگتا ہے کہ اُن کی کامیابی کا راز ان کی زبردست خود نظم و ضبط (Self-Discipline ) ہےجس کی وجہ سے وہ بچپن میں ہی کمپیوٹر پروگرامنگ سیکھنے لگے۔
ایسا ڈسپلن سن کر ہمیں لگتا ہے کہ یہ تو عام انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ مگر اگر آپ کامیاب لوگوں کی زندگی کو غور سے دیکھیں تو ایک گہری سچائی سامنے آتی ہے:
یہ لوگ ہر وقت کوئی سپر ہیرو جیسا ڈسپلن استعمال نہیں کرتے، بلکہ وہ چن کر، صرف شروع میں ڈسپلن کا استعمال کرتے ہیں… تاکہ وہ ایک مضبوط عادت بنا سکیں۔
مثال کے طور پر:
مایکل فیلپس جو دنیا کا سب سے کامیاب تیراک مانا جاتا ہے بچپن میں ADHD کا مریض تھا۔ یعنی وہ توجہ مرکوز ہی نہیں رکھ سکتا تھا۔
لوگ کہتے تھے: یہ بچہ کسی کام میں فوکس نہیں کر سکتا۔لیکن اس نے ساری توانائی ایک چیز پر لگا دی:
روزانہ تیراکی کی عادت۔ چودہ سال کی عمر سے لے کر بیجنگ اولمپکس تک، اُس نے سال کے 365 دن، ہر روز تیراکی کی یعنی صرف ایک عادت کو اپنا سب کچھ بنا لیا۔
جب کوئی چیز عادت بن جائے، تو اسے برقرار رکھنا آسان ہوتا ہے۔
پھر آپ وہی ڈسپلن کسی اور نئے کام میں لگا سکتے ہیں، اور یوں ایک کے بعد ایک مثبت عادت بنتی جاتی ہے۔
فرض کریں آپ صبح دفتر 30 منٹ پہلے جانے کی عادت بناتے ہیں تاکہ باقیوں سے پہلے اپنا ان باکس کلیئر کر سکیں۔
جب یہ عادت بن جائے، تو اگلا قدم ہو سکتا ہے کہ آپ کسی ایک اہم کام پر لمبے وقت تک فوکس کرنے کی عادت ڈالیں۔
پھر اس کے بعد اگلا ہدف…
یعنی: تھوڑا سا ڈسپلن، صحیح جگہ اور صحیح وقت پر لگایا جائے
تو وہ آپ کو ایسی زندگی دے سکتا ہے جیسے آپ انتہائی منظم اور ڈسپلنڈ انسان ہوں اور وہ بھی بغیر کسی "سپر ہیرو" والی محنت و مشقت کے۔
4.ملٹی ٹاسکنگ؟
اصل میں یہ کارکردگی کو تباہ کرتی ہے۔
ایک کام چنیں اور پوری توجہ سے کریں۔
آج کل کے زمانے میں، ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ملٹی ٹاسکنگ ایک بڑی اچھی اور سمارٹ عادت ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم بیک وقت دو یا تین کام کر رہے ہیں، تو ہم زیادہ پروڈکٹیو ہیں۔
لیکن حقیقت بالکل اُلٹ ہے۔
ملٹی ٹاسکنگ کا لفظ دراصل کمپیوٹرز کے لیے بنایا گیا تھا، جہاں ایک پروسیسر ایک وقت میں کئی کام باری باری کرتا ہے — یعنی بہت تیزی سے ایک کام سے دوسرے پر جاتا ہے، پھر واپس، پھر اگلا، اور ایسے ہی مسلسل۔
انسان بھی یہی کرتا ہے:
جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بیک وقت دو کام کر رہے ہیں، تو ہم دراصل مسلسل ذہنی چھلانگیں لگا رہے ہوتے ہیں ایک کام سے دوسرے پر، پھر واپس۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان جب ایک کام سے دوسرے کی طرف جاتا ہے، تو اس سوئچ میں وقت لگتا ہے۔یہ چھوٹے کاموں میں شاید محسوس نہ ہو، لیکن جیسے ہی کوئی کام تھوڑا مشکل ہو — جیسے ایک پیچیدہ اسپریڈ شیٹ یا کوئی اہم سوچنے والا مسئلہ — تو ایک چھوٹا سا وقفہ بھی پوری فوکس برباد کر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر:
آپ ایک اہم رپورٹ بنا رہے ہیں، اور اتنے میں کوئی کولیگ آ کر ایک اور بڑا مسئلہ لے آتا ہے۔
جب وہ بات ختم ہوتی ہے اور آپ واپس رپورٹ پر آتے ہیں، تو آپ کو یاد ہی نہیں رہتا کہ کہاں تک پہنچے تھے، یا کیا سوچ رہے تھے۔
ایسے بریکس پورے دن میں بار بار آتے ہیں۔
ریسرچ کے مطابق، دفتر میں کام کرنے والے افراد کو ہر 11 منٹ بعد ڈسٹرَب کیا جاتا ہے — اور اس ڈسٹرب ہونے کے بعد، دن کا تقریباً ایک تہائی حصہ صرف واپس فوکس حاصل کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔
اب خود سوچیے:
کیا آپ روزانہ اپنی کام کی زندگی کا ایک تہائی حصہ صرف اس لیے ضائع کرنا برداشت کر سکتے ہیں؟
تو حل کیا ہے؟
یہ جانیں کہ اس وقت سب سے زیادہ اہم چیز کون سی ہے؟
اور پھر اُسے پورے دل و دماغ سے، مکمل توجہ کے ساتھ کریں۔
ایک وقت میں ایک کام مگر اُس ایک کام میں مکمل طور پر مشغول ہونا اور یہی اصل طاقت ہے.
5."آپ کی وِل پاور Willpower ایک فیول ٹینک کی طرح ہے۔
اسے سمجھداری سے استعمال کریں، ورنہ جب سب سے زیادہ ضرورت ہو، ختم ہو چکی ہو گی۔"
اکثر لوگ یہ بات خوب جانتے ہیں کہ ان کی ویل پاور (قوت ارادی) آہنی نہیں۔ہم سب زندگی میں کئی بار خود پر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں کچھ لوگ کھانے میں، کچھ جذبات میں، اور کچھ کاموں کو مؤخر کرنے میں. لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ وِل پاور کوئی مستقل طاقت نہیں ہے۔
یہ دن بھر میں مختلف سرگرمیوں کے دوران کم یا ختم ہو سکتی ہے۔
مثلاً:جب ہم کسی کام پر فوکس کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
اپنے جذبات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں،یا اپنی عادتیں اور رویے تبدیل کرتے ہیں تو اس ساری کوشش میں ہماری ویل پاور کھپتی ہے۔
اور جیسے جیسے یہ طاقت کم ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے ہم اگلے مشکل فیصلوں یا چیلنجز کا سامنا کمزور طریقے سے کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ دن بھر تھکے ہوئے ہوتے ہیں.
کئی مشکل فیصلے کر چکے ہوتے ہیں،
تب ایک مزیدار چیز دیکھ کر ضبط نہیں ہوتا اور آپ سوچے سمجھے بغیر کھا لیتے ہیں۔
اب اگر یہ صرف کسی بسکٹ یا چاکلیٹ کا معاملہ ہو،تو کوئی خاص نقصان نہیں۔ لیکن اگر آپ کی کمزور ویل پاور کی وجہ سے
زندگی اور موت جیسے بڑے فیصلے متاثر ہوں تو بات بہت سنگین ہو جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک حیران کن تجربہ اسرائیلی ججز پر کیا گیا:
پتہ چلا کہ وہ دن کی شروعات میں قیدیوں کو پیرول (رہائی) دینے کے زیادہ حق میں ہوتے تھے۔لیکن جیسے جیسے دن گزرتا، اور ان کی ذہنی توانائی کم ہوتی گئی تو وہ Safe Option چنتے یعنی قیدی کو رہا نہ کرنا۔
دلچسپ بات یہ کہ جیسے ہی ججز کو بریک یا سنیک ملتا، وہ پھر سے نسبتاً نرم دل ہو جاتے تھے۔
اس سے ایک زبردست سبق ملتا ہے: جب بھی آپ کو کوئی اہم فیصلہ لینا ہو،تو یہ نہ دیکھیں کہ کیا فیصلہ لینا ہےبلکہ پہلے یہ دیکھیں کہ فیصلہ لینے کی حالت میں ہیں یا نہیں؟
یعنی:وِل پاور کی حالت جانچیں،فیصلہ اسی وقت لیں جب دماغ میں توانائی ہو۔ ورنہ غلط فیصلہ بھی ہو سکتا ہے صرف تھکن یا بھوک کی وجہ سے۔
6.غیر اہم کاموں کو ’نہ‘ کہنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ آپ اپنی توانائی سب سے اہم کاموں پر لگا سکیں۔
ہم سب زندگی میں کئی بار ایسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں جہاں ’نہ‘ کہنا مشکل لگتا ہے۔ ہم مددگار بننا چاہتے ہیں، لوگوں کا دل نہیں توڑنا چاہتے، یا پھر ریجیکشن کے بعد آنے والا احساسِ جرم ہمیں روک دیتا ہے۔
حالانکہ دوسروں کی مدد کرنا ایک خوبصورت جذبہ ہے، لیکن اگر آپ نے اپنی بڑی منزل حاصل کرنی ہے، تو سیکھنا پڑے گا کہ کہاں رکنا ہے، اور کب انکار کرنا ہے۔
اسٹِیو جابز کا ایک مشہور قول ہے:
"فوکس کا مطلب صرف ہاں کہنا نہیں،بلکہ اصل فوکس تو ’نہ‘ کہنے میں ہے۔"
جب وہ 1997 میں ایپل واپس آئے، تو انہوں نے کمپنی کے 350 پراڈکٹس ختم کر کے صرف 10 پر فوکس رکھا۔ یعنی 340 بار ’نہ‘ کہا
اور یہی وہ طاقت تھی جس نے ایپل کو بچایا۔
تو اگر آپ کو لگتا ہے کہ ’نہ‘ کہنا خودغرضی ہے، تو ایک نیا زاویہ اپنائیں:آپ صرف اپنے مشن سے وفاداری دکھا رہے ہیں۔
’نہ‘ کہنا سرد مزاجی نہیں ہے، بس انداز نرم ہونا چاہیے۔
مثلاً:کسی کو انکار کرنے سے پہلے آپ ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں،
انہیں کسی اور بہتر شخص سے جوڑ سکتے ہیں، یا کوئی آسان متبادل تجویز کر سکتے ہیں۔
ایک اور زبردست حکمتِ عملی یہ ہے کہ ایسی بار بار آنے والی درخواستوں کے لیے ایک گائیڈ یا FAQs تیار کریں تاکہ ہر کوئی آپ کے پاس نہ آئے اور صرف واقعی ضروری بات پر رابطہ ہو۔
لیکن یاد رکھیں، کبھی کبھی آپ کو براہِ راست ’نہ‘ کہنا ہی پڑے گا کیونکہ اگر آپ نے ہر چھوٹے موٹے کام میں وقت ضائع کیا، تو وہ کام کبھی نہیں ہو پائے گا جس سے آپ کی زندگی بدل سکتی ہے۔
لہٰذا:"اپنی توانائی بچائیں، کیونکہ جو آپ کو ’ہاں‘ میں الجھا رہا ہے،
وہی اصل میں آپ کے خوابوں کو ’نہ‘ کروا رہا ہے!"
7.مقصد کے ساتھ جینا اور منزل تک پہنچنے کے ہر قدم کو
ذہن میں واضح کرنا یہی غیر معمولی کامیابی کا پہلا راستہ ہے۔
ذرا تصور کریں اگر آپ کی زندگی میں کوئی واضح مقصد نہ ہو؟
نہ کوئی خواب، نہ کوئی منزل، نہ کوئی خاص ارادہ کہ مجھے کس طرف جانا ہے۔
ایسی بے سمتی میں آپ روز صبح جاگ کر کیا طے کریں گے؟
کیا آپ کوئی تھکا دینے والا، مشکل کام صرف اس لیے کریں گے
کیونکہ بس کرنا ہے؟یا دل اکتا جائے گا اور سب کچھ بے معنی لگے گا؟
یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ:"مقصد انسان کی زندگی کو طاقت دیتا ہے۔"
مقصد آپ کے خیالات کو صاف کرتا ہے، فیصلوں میں تیزی لاتا ہے، اور سب سے بڑھ کر، مشکل وقت میں حوصلہ دیتا ہے۔لیکن صرف مقصد طے کرنا کافی نہیں. آپ کو اُس تک پہنچنے کے راستے کو بھی
اپنے ذہن میں تصویری شکل میں دیکھنا ہوگا۔
ایک سائنسی تحقیق میں طلبہ کو امتحان کے دوران دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔
ایک گروپ نے صرف کامیابی کا تصور کیا، جبکہ دوسرے گروپ نے اُس پوری تیاری اور محنت کا تصور کیا جو امتحان کے دن تک پہنچنے میں لگے گی۔
نتیجہ؟
جنہوں نے تیاری اور پراسیس کا تصور کیا تھا، وہ زیادہ پرعزم، تیار، اور کامیاب نکلے۔
تو یہ طے ہے کہ "صرف کامیابی کے خواب نہ دیکھیں ، بلکہ کامیابی تک پہنچنے کا ہر قدم آنکھوں کے سامنے رکھیں ۔" اب دوبارہ وہی بات سوچیں:
پہلے آپ بے سمت تھے — مگر اب؟
فرض کریں کہ آپ کا خواب ہے کہ "ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ہے!"
اچانک ہی سب کچھ واضح ہو جاتا ہے:
آپ کو اب جاننا ہے کہ کس چیز کی ضرورت ہے، کیسی ٹریننگ چاہیے،
کون سا سامان لینا ہے، کس وقت نکلنا ہے، اور کس دن پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنا ہے۔ یعنی اب آپ سوچنا بند اور عمل شروع کر چکے ہیں یہی طاقت ہوتی ہے مقصد کے ساتھ جینے کی۔
8."پروفیشنل کامیابی کے لیے اپنی ذاتی زندگی کی قربانی نہ دیں بلکہ کام کے وقت کو بے رحمی سے ترجیح دیں!"
ہم سب ایک "بیلنسڈ لائف" چاہتے ہیں جہاں کام، گھر، صحت، دوست،
اور سچائی، سب کو برابر وقت ملے۔
لیکن کبھی سوچا ہے؟
کیوں؟آخر ہم کس چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
زندگی کے ہر پہلو کو "برابر وقت دینا"
نہ صرف ناممکن ہے، بلکہ بعض اوقات خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔
کیوں؟
کیونکہ جب آپ ہر چیز کو کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کسی بھی چیز میں مکمل نہیں ہو پاتے۔
مصنف جیمز پیٹرسن نے ایک خوبصورت مثال دی:
"زندگی پانچ گیندوں کے ساتھ ایک کھیل ہے: کام، خاندان، صحت، دوست، اور ایمانداری۔ یہ سب آپ ہوا میں اچھال رہے ہیں۔ ایک دن آپ سمجھتے ہیں کہ کام والی گیند ربڑ کی ہے. اگر وہ گر جائے، تو واپس اچھل آئے گی۔
لیکن باقی چار گیندیں شیشہ ہیں۔ اگر وہ گریں تو ٹوٹ سکتی ہیں،
ہمیشہ کے لیے۔"
یعنی کام دوبارہ آ جائے گا، لیکن اگر آپ نے صحت، رشتے، یا سچائی کو کھو دیا، تو شاید وہ کبھی واپس نہ آئے۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ کام کو نظر انداز کر دیں بلکہ کام کے وقت کو اس سمجھداری سے استعمال کریں جیسے کوئی جنگی جنرل اپنی فوج کو ترتیب دیتا ہے۔
پرسنل لائف میں ہر چیز اہم ہوتی ہے، کوئی چیز "کم ضروری" نہیں۔
لیکن پروفیشنل لائف میں صرف ایک یا دو چیزیں اصل میں اہم ہوتی ہیں، باقی سب کچھ یا تو انتظار کر سکتا ہے یا کسی اور کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔
تو کیا کریں؟
"پہلے طے کریں کہ آپ کے کام میں سب سے اہم چیز کیا ہےپھر باقی چیزوں کو روکیں، ہٹائیں یا کسی اور کے حوالے کریں جب تک وہ اصل کام مکمل نہ ہو جائے۔"
یہی حکمتِ عملیآپ کو اپنے اہم ترین کام پر مکمل فوکس دے گی
اور غیر معمولی نتائج حاصل کرنے میں مدد دے گی۔
زندگی کو بیلنس مت بنائیں بلکہ ذہانت Smartness سے ترتیب دیں۔کام کی گیند واپس آ سکتی ہے، لیکن رشتوں اور صحت کی گیندیں ٹوٹ جائیں تو زندگی کی خوشی ٹوٹ سکتی ہے!
9."ایک بڑی کامیابی کے پیچھے وقت کی بہترین مینجمنٹ اور کچھ حد تک 'افراتفری' کو قبول کرنا ہوتا ہے!"
فرض کریں: آپ نے اپنی “One Thing” یعنی زندگی کا سب سے اہم مقصد ڈھونڈ لیا ہے آپ کے پاس واضح پلان ہے،راستہ صاف ہے، آپ تیار ہیں دنیا کو بدلنے کے لیے!
مگر ایک مسئلہ ہے زندگی رکتی نہیں ہے۔ جب آپ اپنے بڑے مقصد پر فوکس کر رہے ہوتے ہیں،دنیا آپ کے لیے پاز بٹن نہیں دباتی. ای میلز آتی رہتی ہیں، فون بجتے رہتے ہیں، لوگ کام مانگتے ہیں، چھوٹے چھوٹے مسئلے جنم لیتے ہیں۔
تو پھر آپ کیا کریں؟
قبول کریں کہ کچھ چیزیں بگڑیں گی!جب آپ کسی بڑے پروجیکٹ یا خواب پر کام کر رہے ہوتے ہیں، تو دوسرے کام یا تو رکیں گے یا کسی اور کو سونپنے پڑیں گے۔آپ کا انباکس بھرے گا، فائلز ڈھیر ہوں گی، لوگ ناراض ہوں گے لیکن اگر آپ اپنی اصل منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں،تو یہ سب وقتی ہے۔
"اپنے سب سے اہم کام کے بدلےتھوڑا سا Chaos قبول کریں
کیونکہ وہی Chaos بعد میںآپ کی زندگی کو آسان بنا دے گا!"
اور اب سوال یہ ہے:
فوکس کیسے رکھا جائے؟
?اپنے اہم ترین کام کے لیے وقت نکالیں اور اس وقت کی حفاظت کریں! ایسے سمجھیں جیسے یہ وقت کسی ڈاکٹر کی اپائنٹمنٹ ہے، یا کوئی عدالت کی پیشی ہے جسے کسی حال میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔
?اپنے آس پاس کا ماحول ڈسٹربنس سے پاک کریں۔ جہاں Distractionہو، وہاں سے ہٹ جائیں۔ چاہے گھر ہو، کیفے ہو، یا کوئی پارک. بس وہ جگہ ہو جہاں آپ "اپنے اصل کام" پر فوکس کر سکیں۔دفتر سے دور بھی جا سکتے ہیں، اگر وہاں خاموشی نہ ملے۔
بس یاد رکھیں:
"جو لوگ 'One Thing' پر فوکس کرتے ہیں، وہ دنیا میں تبدیلی لاتے ہیں باقی صرف ای میلز کا جواب دیتے رہ جاتے ہیں!"؟
مختصراً یہ کہ اصل کامیابی سب کچھ کرنے میں نہیں، بلکہ وہ ایک کام چننے میں ہے جو سب کچھ بدل دے۔ ذہانت یہ نہیں کہ ہر طرف بھاگو، بلکہ یہ ہے کہ اُس ایک سمت میں دوڑو جو باقی راستوں کو غیر ضروری بنا دے۔
اور یہ فارمولا اپنے پلو سے باندھ لیں.
Clarity + Focus + Consistency = Compounded Power
اگر میری یہ کوشش آپ کو اچھی لگی یا کچھ سیکھنے کو ملا تو اسے اپنے دوستوں، سٹوڈنٹس، کولیگز یا فیملی کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک علم اور بہتری کے یہ اصول پہنچا سکوں اور یہ میری بھی One Thing میں سے ایک ہے.
علم بانٹیے، اثر بڑھائیے، اور کسی کی زندگی بدلنے کا ذریعہ بنیے۔
What's Your Reaction?
Like
0
Dislike
0
Love
0
Funny
0
Angry
0
Sad
0
Wow
0